پاکستانی کرکٹ ٹیم اور سنہ2011

Post Reply
User avatar
muhammadmohsinali
Zero Star Member
Zero Star Member
Posts: 705
Joined: Thu Mar 10, 2011 8:29 pm
Nationality: Pakistani
Location: PPSC FORUM

پاکستانی کرکٹ ٹیم اور سنہ2011

Post by muhammadmohsinali »

پاکستانی کرکٹ کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ تنازعات اور مشکل حالات اسے اکٹھا کر دیتے ہیں۔سپاٹ فکسنگ کے بعد کون سوچ سکتا تھا کہ پاکستانی ٹیم میدان میں قدم جما سکے گی لیکن اس نے مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہونے کے باوجود جیت کی راہ اپنائے رکھی اور سنہ2011 کا اختتام قابل ذ کر انداز میں کیا۔اسی بارے میں پاکستانی ٹیم کی کامیابیوں کو یہ کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ بڑی ٹیموں کے خلاف نہیں ہیں۔کاغذ پر کمزور نظرآنے والی زمبابوے، بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز میدانوں میں حریف کے لیے دردِ سر بن جاتی ہیں یہ بات تمام کپتان بخوبی جانتے ہیں۔نیوزی لینڈ کو اسی کے دیس میں ہرانا اور پھر اپنے سے بہتر رینکنگ کی سری لنکا کو تینوں فارمیٹس میں آؤٹ کلاس کرنا یقیناً پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اہم کامیابی کہی جا سکتی ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اس سال مصباح الحق کی کپتانی میں نیوزی لینڈ، زمبابوے، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتیں جبکہ ویسٹ انڈیز سے سیریز ایک ایک سے برابر رہی۔ دراصل یہی وہ واحد ٹیسٹ میچ ہے جو اس سال پاکستانی ٹیم ہاری جبکہ اس کے جیتے ہوئے ٹیسٹ میچز کی تعداد چھ رہی یعنی اس کی جیت کا تناسب ساٹھ فیصد رہا۔پاکستان کے علاوہ صرف انگلینڈ ہی دوسری ٹیم ہے جس نے اس سال چھ ٹیسٹ میچ جیتے ہیں۔ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی اس سال پاکستان نے کوئی سیریز نہیں ہاری اور اگر ورلڈ کپ کو شامل کرلیا جائے تو بتیس میچوں میں پاکستان نے چوبیس کامیابیاں حاصل کیں جو 2011 میں کسی بھی ٹیم کی سب سے زیادہ فتوحات ہیں۔بھارت نے اکیس اور آسٹریلیا نے اس سال اٹھارہ ون ڈے انٹرنیشنل جیتے۔اعدادوشمار کے اس گورکھ دھندے میں اگر ٹی ٹوئنٹی کی کارکردگی دیکھی جائے تو پاکستان نے اس سال پانچ میں سے چار ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل جیتے ۔ انگلینڈ نے بھی چار میچز جیتے لیکن سات میچز کھیل کر جن میں سے تین میں اسے شکست ہوئی۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اس سال کپتان اور کوچ کی تبدیلی بھی دیکھی۔مصباح الحق ایک کامیاب کپتاندو ہزار گیارہ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے جو کچھ کیا یقیناً مصباح الحق اس پر اطمینان محسوس کررہے ہونگے لیکن ڈوبتے سورج کے ساتھ سب کچھ گزرجاتا ہے اور نیا سورج نئی امیدیں لاتا ہے۔ وہ نئے سال کی ابتداء اچھی کرنے کے لیے پرامید ہیں لیکن انہیں اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ ان کا مقابلہ انگلینڈ سے ہے جسے زیر کرنے کے لیے انہیں غیرمعمولی کارکردگی دکھانی ہوگی۔شاہد آفریدی نے سال کا آغاز کپتان کی حیثیت سے کیا تھا اور ورلڈ کپ میں سیمی فائنل تک رسائی کے بعد ویسٹ انڈیز کے دورے تک وہ کپتان رہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین، سلیکٹر اور کوچ پر الزامات عائد کرکے وہ بھاری جرمانے کی زد میں آگئے۔ پہلے ان کی کپتانی گئی پھر ٹیم سے جگہ بھی اور انہیں بیرون ملک کھیلنے کی اجازت کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔اعجاز بٹ کے جاتے ہی ان کی مشروط ریٹائرمنٹ ختم ہوگئی اور وہ ٹیم میں شامل کر لیے گئے۔کوچ وقاریونس ٹیم کی جیت میں اپنا حصہ ادا کرکے رخصت ہوئے تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے غیرملکی کوچ حاصل کرنے کی ٹھان لی اور وقتی طور پر کوچ کی ذمہ داری چیف سلیکٹر محسن خان کو دے دی گئیں تاہم میدان میں مصباح الحق کی ٹھنڈے دماغ کی کپتانی بیٹسمینوں کی گرم بیٹنگ اور آتشی بولنگ پاکستان کی فتوحات کے سلسلے کو بڑھاتی ر ہیں۔مصباح الحق نے سینئرز اور جونیئرز کو ایک کرکے ان کی صلاحیتوں سے جس خوبی سے کام لیا ہے وہ انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔مصباح الحق کو ورلڈ کپ کے بعد جب تینوں فارمیٹس میں کپتانی دی گئی تو ان کے وسائل محدود تھے خاص کر بولنگ میں وہ اپنے دو مہلک وار محمد عامر اور محمد آصف سے محروم ہوچکے تھے لیکن انہوں نے اس تنگی کو مجبوری نہیں بننے دیا اور عمرگل، وہاب ریاض، تنویراحمد، اعزاز چیمہ اور جنید خان سے حریف بیٹنگ کو قابو کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تاہم ان کی کوششوں کو سپنرز نے زیادہ کامیابی سے ہمکنار کیا۔سعید اجمل، محمد حفیظ، عبدالرحمن اور شاہد آفریدی کو جہاں جہاں موقع ملا وہ حریف بیٹسمینوں کو اپنے شکنجے میں کس کر اپنے کپتان کے چہرے پر مسکراہٹیں لے آئے۔سعید اجمل اس کیلنڈر سال میں پچاس ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے بولر بنے ہیں۔ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ون ڈے میں چونتیس وکٹیں حاصل کر کے وہ عالمی رینکنگ میں اس وقت پہلے نمبر پر آگئے ہیں جبکہ ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں ان کا نمبر دوسرا ہے۔محمد حفیظ اوپنر کی حیثیت سے اچھی کارکردگی دکھانے کے ساتھ ساتھ اہم موقع پر قیمتی وکٹیں حاصل کرنے والے بولر کے طور پرسامنے آئے ۔ ون ڈے میں ان کی وکٹوں کی تعداد بتیس اور ٹیسٹ میں پندرہ رہی جبکہ آل راؤنڈر ہونے پر مہرتصدیق ان کے چھ سو سے زائد ٹیسٹ رنز اور ون ڈے میں ہزار سے زیادہ رنز نے ثبت کردی۔سعید اجمل کا اعزازسعید اجمل اس کیلنڈر سال میں پچاس ٹیسٹ وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے بولر بنے ہیں۔ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ون ڈے میں چونتیس وکٹیں حاصل کر کے وہ عالمی رینکنگ میں اس وقت پہلے نمبر پر آگئے ہیں جبکہ ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں ان کا نمبر دوسرا ہے۔شاہد آفریدی ون ڈے میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولرز میں دوسرے نمبر پر رہے جبکہ ٹیسٹ میچوں میں عبدالرحمن بھی چھتیس وکٹیں حاصل کرکے اپنی موجودگی کا پتہ دیا۔بیٹنگ میں جہاں تجربہ کار یونس خان اور مصباح الحق مڈل آرڈر کا بوجھ بانٹتے رہے وہیں نوجوان باصلاحیت اظہر علی، اسد شفیق اور عمراکمل نے بھی اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا۔اظہرعلی آئی سی سی کے ابھرتےہوئے کرکٹر کے ایوارڈ کے لیے بھی نامزد ہوئے۔ انہوں نے اگرچہ سنچری سکور نہ کرنے کا جمود تو توڑا لیکن انہیں اب بھی نصف سنچری کو تین ہندسوں میں بدلنے کی عادت پختہ کرنی ہوگی۔اگر محمد حفیظ ایک اینڈ سنبھالے رہے تو دوسرے اینڈ پر توفیق عمر بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ اس سال وہ ٹیسٹ میچوں میں سب سے زیادہ آٹھ سو اکتیس رنز بنانے والے پاکستانی بیٹسمین رہے۔دو ہزار گیارہ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے جو کچھ کیا یقیناً مصباح الحق اس پر اطمینان محسوس کررہے ہونگے لیکن ڈوبتے سورج کے ساتھ سب کچھ گزرجاتا ہے اور نیا سورج نئی امیدیں لاتا ہے۔مصباح الحق نئے سال کی ابتداء اچھی کرنے کے لیے پرامید ہیں لیکن انہیں اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ ان کا مقابلہ انگلینڈ سے ہے جسے زیر کرنے کے لیے انہیں غیرمعمولی کارکردگی دکھانی ہوگی
Post Reply

Return to “ENTERTAINMENT”